Shocking Urdu Story about the arab people and Uzza Witch

Shocking Urdu Story

Shocking Urdu Story

عرب جو اس قدر ذہین لوگ تھے اس بے جان بت کی عبادت میں کیسے لگ گئے تھے

اس بت میں ایسا کیا تھا کہ انکو پوجنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا تھا

یہ بت عربوں کو ایسا کیا دکھاتے تھے کہ وہ اسکو پوجنے پر مجبور تھے

کیا عزعٰ نامی یہ بےجان دیوی صرف ایک پتھر تھی؟ یا کوئی ماورائی طاقت؟

اس آرٹیکل میں ہم زمانۂ جاہلیت میں عربوں کے عظیم بت عزیٰ کی تاریخ اور انجام کو جانیں گے

عرب قوم حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں

یہ لوگ پہلے توحید پرست تھے اور دینِ ابراہیمی پر تھے

لیکن پھر ابلیس نے انہیں کفر و شرک اور بُت پرستی میں مبتلا کردیا

مشرکینِ عرب کے بہت سارے بت تھے لیکن ان میں تین بہت زیادہ اہمیت اور شہرت رکھتے تھے

انکے نام لاط مناط اور عزیٰ تھے

لاط مناط اور عزیٰ کو عرب زمانۂ جاہلیت سے ہی پوجتے آئے تھے

وہ ان کے آگے قربانی کرتے ان سے منتیں مانگتے اور انکا بڑا احترام کرتے تھے

عرب لاط مناط اور عزیٰ ان تینوں بتوں کو ہی مانتے تھے

لیکن ان تینوں میں سے سب سے زیادہ بلند مقام عزیٰ کو حاصل تھا

لفظ عزیٰ عزت سے نکلا ہے جسکے معنی سب سے زیادہ قابلِ عزت کے ہیں

مشہور عرب قبائل بنو قریش ، بنو سلیم ، بنو عطفان ، بنو سکیف ، بنو کنانہ اور

اوس و خزرج عزیٰ دیوی کی پوجا کیا کرتے تھے

مؤرخین نے لکھا کہ لاط مناط اور عزیٰ تینوں بہنیں ہیں جبکہ

بعض نے لکھا کہ لاط اور مناط بہنیں ہیں جبکہ عزیٰ ان دونوں کی ماں ہے

مشرکین کے عقائد کے مطابق لات امن و خوشحالی رحم اور انتقام کی دیوی تھی جبکہ

مسافر اپنا سفر شروع کرنے سے قبل لاط سے اچھے موسم اور حفاظت کیلیے دعائیں کیا کرتے تھے

لات کے تمام بتوں میں دیکھا گیا ہے کہ اسکے ایک ہاتھ میں کھجور کی شاخ ہوتی ہے

اور وہ ایک شیر پر سوار رہتی ہے جسے عرب اسد الاط کہتے تھے

مناط کو قسمت، دولت، عزت اور موت کی دیوی مانا جاتا تھا جبکہ

عزیٰ زمانہ جاہلیت کے عربوں کا ایک اہم بت تھا جو طائف کے نزدیک رکھا گیا تھا

اور قریش اسکو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے

قریش خانہ کعبہ کے گرد طواف کے دوران بھی ان بتوں کا نام لگا کر نعرہ لگایا کرتے تھے

دراصل لاط، مناط، اور عزیٰ کے تین بت خانہ کعبہ میں بھی رکھے ہوئے تھے

لیکن یہ صرف علامتی بت تھے اصل بت جن کے مندر بنے ہوئے تھے وہ ذاتِ عرک کے علاقے میں تھے

جہاں عرب کے دور دراز کے علاقوں کے لوگ آکر انکی پوجا کیا کرتے تھے اور چڑھاوے چڑھاتے تھے

ان بتوں کے سامنے قربانی گاہیں بھی تھیں جہاں جانوروں کو ذبح کیا جاتا تھا

عرب یہ مانتے تھے کہ یہ دیویاں نعوذ بااللہ کہ اللہ کی بیٹیاں ہیں استغفراللّٰہ

عربوں کے نزدیک عزیٰ عزت، حفاظت، افزائش نسل حسن جذبات اور محبت کی دیوی تھی

دراصل ان بتوں کے ساتھ تین شیطانی چڑیلیں منسلک تھیں

دراصل یہ شیطان عورتیں ہوتی ہیں یعنی کہ مادہ شیطان

ان بتوں کی دیکھ بھال اور لوگوں کو انکی عبادت کے طریقے سکھانے کیلیے مندروں میں پجاری ہوتے تھے

جو لوگوں کو گمراہ کرتے اور اسکے عوظ بتوں پر چڑھاوے کی چیزوں کو خود سمیٹتے تھے

عزیٰ کا یہ بت خراز نامی ایک بستی میں واقع تھا یہ ایک شاندار مندر تھا

اس مندر میں دیویا نامی ایک پجاری عزیٰ کی دیکھ بھال اور خدمت کرتا تھا

مندر کے سامنے تھوڑے فاصلے پر جھاؤ کے تین درخت تھے عربی میں ان درختوں کو اصل کہتے ہیں

یہ ایک صحرائی درخت ہوتا ہے جو اجاڑ اور بنجر صحراؤں میں پیدا ہوتا ہے

جھاؤ کے اس درخت پر عزیٰ کا بسیرا تھا اس بارے میں کسی کو بھی علم نہیں تھا کہ

عزیٰ کی جس بت کی پوجا کی جاتی ہے وہ ایک شیطانی طاقت ہے

جو اس درخت پر رہتی ہے

جب بھی لوگ اس پر چڑھاوے اور منتوں کیلیے آتے تو وہ چڑیل مندر کے بت میں داخل ہوکر بولتی اور

شیطانی قوتوں سے لوگوں کے مسئلے بھی حل کردیا کرتی

اسطرح اسکا آقا ابلیس اسکی کارکردگی پر خوش تھا

جب اللّٰہ نے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مبعوث فرمایا

اور آپ نے اللّٰہ کی مدد سے مکہ فتح کیا تو کچھ دنوں بعد بتوں کی شامت آگئی

خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے بت توڑے جانے لگے اور سچے رب کا نور چمکنے لگا

خانہ کعبہ سے بتوں کو ہٹانے کے بعد مختلف دیہاتوں اور بستیوں میں بنے ہوئے مندروں کی باری آگئی

نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہر چھوٹے اور بڑے بت کو توڑنے کا حکم دیدیا

چند مؤرخین کا کہنا ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر مناط کے بتوں میں ایک بت کو

بہت رازداری کے ساتھ عرب سے نکال کر زمینِ ہند کی جانب روانہ کردیا

اور وہ موجودہ ہندوستان کے گجرات میں پہنچا دیا گیا جہاں اس بت کو ایک مندر میں منتقل کردیا گیا

جسے سومنات مندر کے نام سے جانا جاتا ہے

سلطان محمود غزنوی رح نے ساڑھے چار سو سالوں کے بعد ہندوستان پر حملہ کرکے اس بت کو توڑ دیا تھا

جب مکہ کے تمام بت توڑے جاچکے تو پچیس رمضان کو نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بلایا، انسانی تاریخ کا سب سے قابل ترین جنریل

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو عزیٰ کی تبائی کا مشن سونپا گیا

آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو حکم دیا

کہ وہ عزیٰ کے مندر کے قریب تین جھاؤ کے درختوں میں سے ایک کو جاکر کاٹ دے

لہذا آپ حکم کی تعمیل کرتے ہوئے خراز بستی میں پہنچے

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تیسرے درخت کے قریب اسے کاٹنے کی نیت سے پہنچے

تو اچانک عزیٰ نامی چڑیل آپ کے سامنے حاضر ہوگئی

وہ ایک خوفناک صورت والی برہنہ عورت تھی

وہ شعلے برستی آنکھوں سے حضرت خالد کو گھورنے لگی

اچانک مندر کا پجاری بلند آواز سے پکار کر بولا عزیٰ خالد کو قتل کردے

اگر توں نے خالد کو قتل نہ کیا تو آج توں ذلیل و رسوا ہوجائے گی

عزیٰ حضرت خالد کی جانب بڑھی آپ نے تلوار نکالی اور اللّٰہ کا نام لیکر

عزیٰ پر حملہ کردیا پہلے ہی وار میں عزیٰ کا سر تن سے جدا ہوگیا

اسکے زمین پر گرتے ہی اسکا جسم جلنے لگا

تھوڑی دیر بعد آپکے سامنے ایک کوئلے کا ڈھیر موجود تھا

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عزیٰ کو قتل کرنے کےبعد اسکے بت کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کردیا

پھر اسکے بعد مندر کے پجاری کو بھی قتل کرکے واپس روانہ ہوئے

آپ نے واپس آکر سارا واقعہ آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سنایا

اس پر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا یہ عزیٰ تھی اب یہ ہمیشہ کیلیے ختم ہوگئی ہے

اسکی دوبارہ اب پوجا نہیں ہوگی اور اسطرح صدیوں تک پوجے جانے والی

یہ شیطانی طاقت کا خاتمہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حکم سے سیف اللہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں سے ہوا

لکھنے میں تھوڑی سی غلطیاں ہوئی ہونگی معاف کیجئے گا 🙏

Shocking Urdu Story, History

The battle between Hazrat Ali and the giants(Jinn)

Comments

Popular posts from this blog

Insomnia in Urdu - Symptoms, Causes, and treatment

Health Tips in Urdu - How to make Pomegranate Tea

Moral Urdu story of a poor girl and a rich man