Ottoman Empire will be re-established in Turkey in 2023? interesting info
Ottoman Empire
اب ترکی میں عثمانی خاندان کے بہت سے افراد سکونت پزیر ہورہے ہیں
سلطان عبدالحمید دوئم کے پوتے عبدالحمید کائی ترکی میں عثمانی خاندان کی نمائندگی کرتے ہیں۔
خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد عثمانی ملکائیں اور شہزادیاں کس کے گھروں میں برتن مانجتی رہیں اور شہزادے کس حالت میں اور کن جگہوں پہ بھیگ مانگتے پھرتے رہے تاکہ اپنا گزر بسر کر سکیں..
سلطنتِ عثمانیہ ٹوٹنے کے بعد عثمانی خاندان کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا. ارتغرل غازی اور عثمان غازی کی اولادیں ان دِنوں کہاں پر اور کس حالت میں ہیں؟
آج کا یہ کالم دل آپ کا دل دہلا دے گا کیونکہ اس کالم میں آپ کو وہ کچھ بتایا جائے گا کہ آپکا دل موم ہوجائے گا.
کہاں آپ نے ارتغرل غازی اور عثمان غازی کی طاقت کے قصے سنے اور
ڈرامہ سیریز دیکھی جوکہ خون گرما دیتی ہیں کہاں آپ سب نے سلطنتِ عثمانیہ کا دنیا بھر میں
روب اور دبدبے کی حکومت دیکھی جہاں بڑی بڑی طاقتوں نے عثمانیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے
Ottoman Empire
اور پھر آپ سب نے سلطان محمد فاتح اور سلیمان علیشان کے تاریخی فتوحات کے قصے تو
ضرور سنے ہوں گے جوکہ زیادہ دور کی باتیں بھی نہیں ہیں لیکن آپ کو ان تاریخی ہیروز کی
کروڑوں مربہ کلو میٹر پہ پھیلی ہوئی ریاست کی حالت آپکو بتائیں گے تو حیران بھی ہوں گے
اور پریشان بھی. کیونکہ کافی وقت تک عثمانی خاندان رہنے کو کوئی جھونپڑی ڈھونڈتے رہے
اور کھانے کےلیے بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے
جی ہاں ہم بات کررہے ہیں نومبر-1922 کی
جو تاریخ اسلام کا وہ سیاہ دن ہے جب سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کا باضابطہ طور پر آغاز ہوچُکا تھا
ترکی میں سلطان محمد ششم کی حکومت کو ختم کردیا گیا اور مصطفٰی کمال پاشا اتاترک جسے
آج ماڈرن ترکی کے لوگ ہیرو تصور کرتے ہیں انکی حکومت شروع ہوگئی تھی
اور سلطان محمد ششم کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دیتے ہوئے ملک بدر کردیا گیا
جو 17-نومبر کو بذریعہ برطانوی بحری جہاز مالٹا روانہ ہوگئے تھے انکے بیٹے
شہزادہ محمد آفندی ارتغرل بھی انکے ساتھ تھے تاہم بعد ازاں وہ وہاں سے اٹلی چلے گئے اور
انہوں نے زندگی کے آخری ایام اٹلی پہ ہی گزارے انکی وفات 1926 کو اٹلی میں ہوئی
اور انکو دمشق میں سلطان سلیم اول مسجد کے قریب دفن کیاگیا وہ جب تک زندہ رہے
عثمانی خاندان کے سربراہ کے طور پہ رہے
Ottoman Empire
دوسری جانب 19-نومبر-1922 کو انکے قریبی عزیز عبدالمجید آفندی کو نیا خلیفہ چُنا گیا
جو 1924 میں خلافت کے خاتمے تک یہ ذمہ داری نبھاتے رہے اسی کے ساتھ
تمام عثمانی خاندان کو جلاوطن کردیا گیا
ذرا سوچیے کہ ایک ایسا خاندان جو چھ سو سال سے زیادہ کے عرصہ تک
دنیا کے بڑے حصے پہ حکومت کررہا تھا اسی خاندان کےلیے انکے اپنے ملک میں جگہ تنگ ہوگئی
عثمانی خاندان شش و پنج میں مبتلا تھا کہ یہ آخر انکے ساتھ ہوکیا رہا ہے
جِلاوطن ہونے والے خاندان کی تعداد 156 بتائی جاتی ہے۔ ان میں سلطان کے ساتھ
بہت سے شہزادے بچے شہزادیاں اور شاہی خاندان کی خواتین انکے ساتھ شامل تھیں اور
کچھ شاہی خاندان کے نوکر وغیرہ بھی انکے ساتھ تھے جو اپنے مالکوں کا ساتھ
کبھی نہیں چھوڑنا چاہتے تھے اس کے ساتھ شاہی خاندان کے تمام داماد بھی جِلاوطن کردیئے گئے
Ottoman Empire
اور انکو یکطرفہ پاسپورٹ جاری کیا گیا۔
آلِ عثمان کو سلطنت ٹوٹنے کے بعد رات کو ہی گھریلو لباس میں یورپ بھیج دیا گیا۔
شاہی خاندان نے کہا کہ آخر یورپ ہی کیوں؟ انکو کسی بھی ایک عرب ملک میں بھیج دیا جائے
لیکن یہاں پر دشمنوں کا مقصد عثمانیوں کو صرف شکست دینا ہی نہیں تھا بلکہ انکی تذلیل کرنا بھی تھا
جو علاقے عثمانیوں نے فتح کیئے ہوئے تھے اب عثمانیوں کو وہاں پر
تارکِ وطن کی حیثیت سے بھیجا جارہا تھا۔ تاکہ دشمن اپنے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرسکے۔
چنانچہ کسی کو یونان اور کسی کو یورپ روانہ کیا گیا
اور آخری عثمانی بادشاہ سلطان وحیدالدین اور انکی اہلیہ کو رات و رات فرانس بھیج دیاگیا
انکی تمام جائیدادیں بھی ضبط کرلی گئی تھیں
Ottoman Empire
مورخین بتاتے ہیں کہ عثمانیوں کو انکے اپنے وطن سے ہی گھریلو لباس اور
خالی جیب کے ساتھ اس حال میں رخصت کیا گیا کہ ایک پائی تک انکے پاس نہ تھی۔
کہاں جاتا ہے یہ وقت آچُکا تھا کہ سلطان وحیدالدین کے شہزادے منہ چھُپا کر
پیرس کی گلیوں میں بھیک مانگا کرتے کہ کوئی انہیں پہچان نہ لے۔
پھر جب سلطان کی وفات ہوئی تو کنیزا انکی میت کو کسی کے حوالے نہیں کررہا تھا کیونکہ
سلطان کے اوپر دکانداروں کا قرض چڑھا ہوا تھا۔ بالآخر مسلمانوں نے چندہ اکھٹا کرکے
سلطان کا قرض ادا کیا اور انکی میت کو شام روانہ کیا گیا اور وہاں پر وہ سپردِ خاک ہوئے۔
بیس سال بعد جنہوں نے سب سے پہلے عثمانی خاندان کے بارے دریافت کیا
اور انکی خبرگیری کی وہ ترکی کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم عدنان تھے
شاہی خاندان کی تلاش کےلیے وہ فرانس گئے۔ پیریس کے سفر میں کہتے پھرتے تھے مجھے
میرے اباؤ اجداد کا پتہ تو بتاؤ مجھے میری ماؤں سے ملاؤ
بالآخر وہ پیریس کے ایک چھوٹے سے گاؤں پہنچ کر ایک کارخانے میں داخل ہوئے
کیا دیکھتے ہیں کہ سلطان عبدالحمید کی زوجہ پچاسی سالہ ملکہ شفیقہ اور انکی بیٹی
شہزادی عائشہ ایک کارخانے میں نہایت معمولی اجرت پر برتن مانجھ رہی ہے۔
یہ دیکھ کر وزیرِ اعظم عدنان اپنے آنسو نہ روک سکے اور زار و قطار رو پڑے
پھر ملکہ کا ہاتھ چوم کر کہنے لگے مجھے معاف کیجئے مجھے معاف کیجئے
شہزادی عائشہ نے پوچھا آپ کون ہیں؟
کہا میں ترک وزیرِ اعظم عدنان ہوں اتنا سننا تھا کہ وہ بول اُٹھیں ابتک آپ کہاں رہ گئے تھے
آپ نے آنے میں بہت دیر کردی اور پھر خوشی کے مارے بے ہوش ہوکر گرپڑیں۔
عدنان جب ان سے ملاقات کرکے انقرہ واپس گئے تو انہوں نے صدر جلال بیار سے کہا کہ
میں آلِ عثمان کےلیے معافی نامہ جاری کرنا چاہتا ہوں اور اپنی ماؤں کو واپس انکی
سرزمین پہ لانا چاہتا ہوں۔ جلال نے شروع میں تو انکار کیا لیکن عدنان کے مسلسل اصرار پر
صرف عورتوں کو ہی واپس لانے کی تائید کی۔
Ottoman Empire
پھر عدنان میندرس خود فرانس گئے اور ملکۂ شفیقہ اور شہزادی عائشہ دونوں کو
فرانس سے ترکی لے آئے تاہم اسوقت تک شہزادوں کو واپس آنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی
لیکن بعد ایزاں شہزادوں کےلیے معافی نامہ جاری کرکے انکو اپنے وطنِ عزیر
ترکی لانے کا سہرا مرحوم اربگان کے سر جاتا ہے جب وہ وزیرِ اعظم کے منسب پر فائز ہوئے تھے
پھر جب عدنان پر جھوٹا مقدمہ چلا کر انکو تختۂ دار پر لٹکایا گیا تو باقی
الزامات کے ساتھ ایک الزام یہ بھی تھا کہ انہوں نے حکومت کے خزانے سے چوری کرکے
سلطان کی اہلیہ اور انکی بیٹی پر خرچ کیا ہے اس لیئے کہ وہ ہر عید کے موقع پر
ملکہ اور شہزادی سے ملاقات کےلیے جاتے اور انکے ہاتھ چومتے اور اپنی جیبِ خاص اور
اپنے ذاتی صرفے سے دس ہزار لیرا سالانہ شہزادی عائشہ اور ملکہ شفیقہ کی خدمت میں پیش کرتے تھے
جب عدنان میندرس شہید ہوئے تو بتایا جاتا ہے کہ دوسرے ہی دن
ملکۂ شفیقہ اور شہزادی عائشہ کی بحالتِ سجود وفات ہوگئی تھی
عثمانی سلطنت کے خاتمے کے بعد خاندان کا سربراہ وہ منتخب ہوتا جو
پورے خاندانِ آلِ عثمان میں عمر کے لحاظ سے سب سے بڑا ہوتا
1926 میں عبدالمجید دوئم عثمانی خاندان کے سربراہ مقرر ہوئے۔ 1944 میں انکی وفات پیرس یعنی فرانس میں ہوئی۔
انکے بعد 1944 میں شہزادہ احمد نہاد چہارم عثمانی خاندان کے سبراہ مقرر ہوئے۔ آپ سلطان مراد پنجم کے پوتے اور شہزادہ محمد صلاح الدین کے بیٹے تھے۔
یہ 1937 میں فرانس کو چھوڑ کر لبنان منتقل ہوچکے تھے۔ چار جان 1954 بیروتھ لبنان میں ہی انکی وفات ہوگئی۔
انکے بعد انکے آبائی شہزادے عثمان فواد عثمانی خاندان کے سربراہ بنے۔
Ottoman Empire
جوکہ فرانس ہی میں رہائش پزیر تھے۔ اپنے بھائی کے برعکس انہوں نے جدید طرزِ زندگی اختیار کرلیا تھا۔
یہ سلسلہ یہیں پر نہیں… رُکا بلکہ اس سلسلے کے ساتھ ہم آپ کو آج کے دور کے عثمانی خاندان تک لیکر آتے ہیں
اسی لیئے 19 مئی 1973 کو فرانس میں ہی شہزادے عثمان فواد کا انتقال
بیماری کی وجہ سے بتایا جاتا ہے۔ انکے بعد شہزادہ محمد عبدالعزیز دوئم خاندانِ عثمانیہ کے سربراہ بنے۔ آپ سلطان عبدلعزیز اول کے پوتے اور
شہزادہ محمد سیف الدین کے بیٹے تھے یہ بھی فرانس ہی میں مقیم تھے۔ انکا انتقال فرانس میں ہی ہوا۔
انکے بعد عثمانی خاندان کے سربراہ شہزدے علی واسع مقرر ہوئے۔ آپ احمد نہاد کے بیٹے تھے۔ آپ 1935 میں مصر میں سکونت پزیر ہوچکے تھے۔ اور 9 دسمبر 1983 کو مصر میں ہی اسی سال کی عمر میں فوت ہوئے
انکے بعد عثمانی خاندان کے سربراہ شہزادے محمد اُرحان دوئم مقرر ہوئے
آپ سلطان عبدالحمید دوئم کے پوتے اور شہزادے محمد عبدالقادر کے بیٹے تھے۔ 12 مارچ 1994 کو فرانس میں آپ وفات پاگئے
1994 سے ارتغرل عثمان خاندانِ آلِ عثمان کے سربراہ مقرر ہوئے۔ جو سلطان عبدالحمید کے پوتے اور شہزادے برحان الدین کے بیٹے تھے۔
جب 1924 کو عثمانی خاندان جِلا وطن ہوا یہ اسوقت آسٹریا میں زیرِ تعلیم تھے۔
Ottoman Empire
انکو خبر معلوم ہوئی تو وہ وہیں پر رہے اور بعد میں نیویارک یعنی کہ
امریکہ میں منتقل ہوگئے اور کافی عرصہ وہیں پر رہے۔ کئی بار انہوں نے حکومت کے بلاوے پر ترکی کا دورہ بھی کیا۔
سن 2004 میں یہ ترکی میں ہی سکونت پزیر ہوگئے۔ 24 ستمبر 2009 میں ستانوے برس کی عمر میں استنبول ترکی میں ہی انکا انتقال ہوگیا
اور اسکے بعد عثمانی خاندان کے اگلے سربراہ بایزید عثمان بنے۔ اور وہ اپنے خاندان کے ساتھ نیویارک یعنی کہ امریکہ میں مقیم تھے۔ عثمان بایزید کا 2017 میں انتقال ہوگیا۔

اور اسکے بعد سلطنتِ عثمانیہ کے آخری طاقتور سلطان عبدالحمید ثانی کے پڑپوتے اور
سلطان کے صاحبزادے محمد سلیم آفندی کے پوتے دمدار عبدالکریم عثمان سلطنتِ عثمانیہ کے نئے سربراہ بنے۔ سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد جب شاہی خاندان کو ترکی سے جِلا وطن کیا گیا تھا
تو دمدار عبدالکریم کا خاندان دمشق منتقل ہوگیا تھا۔ انکی پیدائش 1924 میں وہیں پر ہوئی تھی۔ دمدار عبدالکریم عثمان 19 جنوری 2021 تک سلطنتِ عثمانیہ کے سربراہ رہے اور
نوے برس کی عمر میں دمشق میں انکا انتقال ہوگیا۔
Ottoman Empire
دمدار عبدالکریم کے بعد انکے 88 سالہ ہارون شاہی خاندان کے نئے سربراہ بنے۔ ہارون عثمان 1974 میں ترکی لوٹے تھے اور اسوقت استنبول میں ہی مقیم ہیں۔
اب ترکی میں عثمانی خاندان کے بہت سے افراد سکونت پزیر ہورہے ہیں۔
سلطان عبدالحمید دوئم کے پوتے عبدالحمید کائی ترکی میں عثمانی خاندان کی نمائندگی کرتے ہیں۔
یہ خاندان آج بھی زندہ ہے اور مختلف ممالک میں مختلف جگہوں پر رہ رہا ہے۔ جن میں امریکہ ، بلغاریہ ، ہنگری ، فرانس اور مصر وغیرہ شامل ہیں
آپ لوگ اب یہاں پر ایک بہت ہی اہم سوال کا جواب ہمیں بتائیے گا کہ ماضی میں جسطرح سے
عثمانی خاندان نے ایک تاریخ ساز سلطنت قائم کی تھی تو اُس سنہری دور کو دیکھتے ہوئے
آج کے دور میں اس خاندان کے شہزادوں کو دوبارہ سے ترکی میں واپس لانا چاہیے یا نہیں
کمنٹ کرکے ضرور بتائیے گا
اگر لکھنے میں کوئی کمی بیشی ہوگئ ہوتو اگنور کردیجئے شکریہ۔
ملتے ہیں اگلے آرٹیکل میں تب تک اپنا خیال رکھیے گا اللہ حافظ۔
following us on twitter
Comments
Post a Comment